ابتدائی زندگی اور پرورش
حضرت حفصہ 605 عیسوی کےقریب مکہ میں عمر بن خطاب اور زینب بنت مزون کے ہاں پیدا ہوئیں ۔ آپ کے والد ، حضرت عمر ، ایک مشہور رہنما اور پیغمبر اسلام کے ساتھی تھے ، جو بعد میں اسلام کے دوسرے خلیفہ بنے ۔ حضرت حفصہ کی ابتدائی زندگی میں عقیدے کی پختگی، تعلیم اور کردار کی نشوونما پر زور دیا گیا تھا ۔ ان کی پرورش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جو علم ، ہمت اور ہمدردی کی قدر کرتا تھا حضور اکرم سے پہلے حضرت حفصہ حضرت خنیس بن حذافہ کی زوجیت میں تھیں، جو شرکائے بدر میں سے ہیں سیدہ حفصہ نے ان کے ہمراہ ہجرت فرمائی۔ (الطبقات الکبری، ج ۸، ص ۱۵) بعد وصال حضرت خنیس سیدنا فاروق اعظم نے اپنی صاحبزادی کے نکاح کے لئےعثمان غنی سے کہا مگر انہوں نے اثبات میں جواب نہ دیا۔ اس کے بعد حضرت عمر نے حضرت ابو بکر صدیق سے ملاقات کی اور فرمایا کہ اگر آپ کی خواہش ہو تو حفصہ کا نکاح آپ کے ساتھ کردوں۔ اس پر ابو بکر صدیق خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ تو حضرت عمر کو غصہ آیا اور یہ غصہ اس سے زیادہ تھا جتنا کہ حضرت عثمان پر آیا تھا۔ اس کے بعد چند راتیں گزری تھیں کہ رسول اللہ نے پیام دیا اور حضرت عمر نے حضرت حفصہ کا نکاح حضور اکرم سے کر دیا، پھرسیدنا صدیق اکبر نے فرمایا کہ شاید اس وقت مجھ پر ناراض ہو گئے تھے جب کہ تمہاری پیش کش پر میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ حضرت عمر نے کہا : میں ناراض ہو گیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ تمہاری پیش کش کا انکار تو نہیں کیا تھا۔ البتہ میں یہ جانتا تھا کہ رسول نے حضرت حفصہ کو یاد فرمایا ہے اور میں نے رسول اللہ کے راز کو افشا نہیں کیا۔ اگر رسول اللہ
انہیں قبول نہ فرماتے تو میں قبول کر لیتا۔ (الطبقات الکبری، ج ۸، ص ۲۵)
خوشخبری
حضرت عمار بن یاسر فرماتے ہیں: رسول اللہ نے حضرت حفصہ کو طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تو حضرت جبریل علیہ السلام نے حاضر ہو کر عرض کی : آپ انھیں طلاق نہ دیں کیونکہ وہ شب بیدار ، بکثرت روزے رکھنے والی اور جنت میں آپ کی زوجہ ہیں۔ (1) معجم الکبیر للطبرانی، الحدیث ۳۰۶، ج ۲۳، ص ۱۸۸)
شادی کی تقریب سادہ اور شائستہ تھی ، جس میں نبی نے حضرت حفصہ کو 400 درھم کا مہر (جہیز) ادا کیا ۔ اس شادی میں قریبی خاندان اور دوستوں نے شرکت کی ، اور حضرت حفصہ نبی کی بیویوں میں سے ایک بن گئیں ۔
اس شادی نے نہ صرف حضرت حفصہ کو ذاتی خوشی دلائی بلکہ ایک معزز عالم ، استاد اور پیغمبر کے ساتھی کی حیثیت سے بھی ان کی حیثیت کو بلند کیا ، جس نے اسلامی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا
نبی کی بیوی کے طور پر ، حضرت حفصہ مسلم برادری میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں اور وہ مقام ہے ام المومنین اور تمام مسلم خواتین کی لیے ایک مشعل راہ کا
قرآن پاک کے تحفظ اور تدوین میں تعاون
حضرت حضرت حفصہ کا سب سے اہم تعاون قرآن کے تحفظ میں ان کا کردار تھا ۔ پہلے خلیفہ ، ابو بکر کے دور حکومت میں ، حضرت حفصہ کو قرآن کی ابتدائی تحریری نسخے کی صورت میں سونپی گئی تھی ۔ آپ نے متن کو مرتب کرنے اور اس کی تصدیق کرنے میں ، اس کی درستگی اور صداقت کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ آپ کی محتاط کوششوں نے قرآن کو ایک مستحکم اور قابل اعتماد متن کے طور پر قائم کرنے میں مدد کی ، جو صدیوں سے قائم ہے ۔
حضرت محمد کی اہلیہ اور عمر بن خطاب کی بیٹی حضرت حفصہ نے قرآن پاک کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس کی لگن اور باریکی سے کی گئی کوششوں نے مقدس کتاب کی درستگی اور صداقت کو یقینی بنایا ، جس سے وہ اسلامی تاریخ میں ایک قابل احترام شخصیت بن گئیں ۔
حضرت حفصہ بہت زیادہ سخی اور عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ و حدیث میں بھی ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہیں ۔ انہوں نے رسول پاک سے ساٹھ حدیثیں روایت فرمائی ہیں جن میں سے پانچ حدیثیں بخاری شریف میں مذکور ہیں باقی احادیث دوسری کتب حدیث میں درج ہیں ۔
شہا دت
علم حدیث میں بہت سے صحابہ اور تابعین ان کے شاگردوں کی فہرست میں موجود نظر آتے ہیں جن میں خود ان کے بھائی عبداﷲ بن عمر بھی شامل ہیں ۔ شعبان ۴۵ھ میں مدینہ منورہ کے اندر ان کی وفات ہوئی اس وقت حضرت امیر معاویہ کی حکومت کا زمانہ تھا اور مروان بن حکم مدینہ کا حاکم تھا۔ اسی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور کچھ دور تک ان کے جنازہ کو بھی اٹھایا پھر حضرت ابوہریرہ قبر تک جنازہ کو کاندھا دیئے چلتے رہے۔ ان کے دو بھائی حضرت عبداﷲ بن عمر اور حضرت عاصم بن عمر رضی اور ان کے تین بھتیجے حضرت سالم بن عبداﷲ و حضرت عبداﷲ بن عبداﷲ و حضرت حمزہ بن عبداﷲ نے ان کو قبر میں اتارا اور یوں آپ جنت البقیع میں دوسری ازواجِ مطہرات کے پہلو میں مدفون ہوئیں ۔ بوقت وفات ان کی عمر ساٹھ یا تریسٹھ برس تھی۔