مفہوم
ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرا مہینا ہے۔ یہ مہینا فضیلتوں اور سعادتوں کا مجموعہ ہے کیونکہ وہ ذات پاک جن کو اللہ کریم نے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا وہ عظمتوں والے نبی، خاتم النبیین ، محمد مصطفے اسی ماہ مبارک میں دنیا میں تشریف لائے۔ گویا اس مہینے کو سب فضیلتیں اور سعادتیں نبی مکرم کی ولادت کے صدقے نصیب ہوئیں۔ حضرت امام زکریا بن محمد بن محمود قزوینی فرماتے ہیں: یہ وہ مبارک مہینا ہے جس میں اللہ پاک نے حضور کے وجود مسعود کے صدقے دنیا والوں پر بھلائیوں اور سعادتوں کے دروازے کھول دیئے ہیں اس مہینے کی بارہ تاریخ کو رسول الله کی ولادت ہوئی
ربیع الاول
ربیع موسم بہار یعنی سردی اور گرمی کے درمیان کے موسم کو کہتے ہیں۔ اہل عرب موسم بہار کے ابتدائی زمانے کو “ربیع الاول “ کہتے تھے اس میں کھمبی اور پھول پیدا ہوتے تھے اور جس وقت پھلوں کی پیداوار ہوتی تو ان ایام کو ربیع الآخر کہتے تھے۔ جب مہینوں کے نام رکھے گئے تو صفر کے بعد والے دو مہینوں کو انہی دوموسموں کے ناموں پر ربیع الاول اور ربیع الآخر کا نام دیا گیا۔
برسات میں گلی لکڑی کے بھیگنے سے چھتری کی طرح ایک گھاس اگ جاتی ہے اسے عربی میں كماة ، شحم الأرض، اردو میں تمبی اور چھر مار کہتے ہیں۔
ان دو مہینوں کو ربیع کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں لوگ ارتباع کرتے کہ یعنی گھروں میں ٹھہرتے تھے۔ چونکہ ان دونوں مہینوں میں خوشحالی اور فراخی کی وجہ سے عرب کے لوگ گھروں میں ہی قیام کرتے تھے اس لیے انہیں ربیع کہا جانے لگا۔
ربیع الاول کی عظمتوں کی وجہ
ربیع الاول کی عظمتوں کے کیا کہنے! اسے کائنات کی سب سے زیادہ عظمت و شان والی ہستی، ہمارے پیارے نبی سے نسبت ہے۔ اس نسبت نے اس مہینے کی شان بڑھادی ہے اور اس تاریخ کو رشک لیلتہ القدر بنا دیا ہے کیونکہ جس میں آب کی مبارک ولادت ہوئی ہے وہ تاریخ مسلمانوں کے لیے عیدوں کی بھی عید ہے، یقینا حضور انور صلى الله علیہ والہ وسلم جہاں میں شاہ بحروبر بن کر جلوہ گر نہ ہوتے تو کوئی عید ۔ عید ہوتی، نہ کوئی شب، شب براءت۔ بلکہ کون و مکاں کی تمام تر رونق اور شان اس جان جہان، محبوب رحمن صلى الله علیہ والہ وسلم کے قدموں کی ڈھول کا صدقہ ہے۔ اس مبارک مہینے کی بارہویں تاریخ بہت ہی سعادتوں اور عظمتوں والی ہے کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت با سعادت بروز پیر
12 ربیع الاول کو ہوئی شب قدر سے افضل رات :
علمائے اسلام رحمتہ اللہ علیہ نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ جس رات سید عالم صل اللہ علیہ والہ و سلم کی ولادت با سعادت ہوئی وہ شب قدر سے بھی افضل ہے۔ جیسا کہ حضرت سید ناشیخ عبد الحق محدث دہلوی رخنہ امینیہ (وفات: 1052ھ) لکھتے ہیں: بے شک سرورِ عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کی رات شب قدر سے بھی افضل
ہے۔ شارح بخاری حضرت علامہ شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی رحمة الله عليه ( وفات : 952ھ) نے شب ولادت کے لیلتہ القدر سے افضل ہونے کی تین وجوہات
(1)
شب ولادت
آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ذات والا کے ظہور کی رات ہے جبکہ لیلتہ القدر آپ کو عطا کی گئی ہے۔ اس اعتبار سے شب ولادت شب قدر سے افضل ہے۔ (2) شب قدر نزول ملائکہ کی وجہ سے مشرف ہے اور شب ولادت حضور صلی الله
عليه الہ و سلم کے ظہور کی وجہ سے معظم ہے اور جس بستی کی وجہ سے شب ولادت
فضیلت والی ہے یقینا وہ ملائکہ سے افضل ہیں لہذا شب ولادت شب قدر سے افضل ہے
لیلتہ القدر کی برکتوں اور انعامات سے امت مصطفے ہی فیضیاب ہوتی ہے مگر شب ولادت میں حضور رحمة للعالمین بن کر تشریف لائے اور نعمت تمام مخلوق کے لئے ہے ، تو شب ولادت نفع کے اعتبار سے زیادہ عام ہوئی اس پیر کے دن کی اہمیت:
سید المرسلین کے کی ولادت کا دن ہونے کے ساتھ ساتھ یہ دن اور بھی کئی وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله منهنا بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم کے دن کےیدا ہوئے اور پیر کے دن ہی آپ کی نبوت کا ظہور ہوا، مکہ مکرمہ سے ہجرت کرتے ہوئے پیر کے دن نکلے، پیر کے دن مدینہ منورہ میں داخل ہوئے، پیر کے دن وصال ظاہری ہوا اور آپ نے حجر اسود کو پیر کے دن ہی نصب فرمایا۔ ایک روایت
کے مطابق بدر میں فتح بھی پیر کے دن ملی اور پیر کے دن سورہ مائدہ نازل ہوئی۔
وقت ولادت مشہور محدث حافظ محمد بن عبد الله المعروف ابن ناصر الدین دمشقی رحمة الله عليه (وفات : 842ھ) فرماتے ہیں
صحیح یہ ہے کہ نبی کریم کی ولادت طلوع فجر( صبح صادق) کے وقت ہوئی اور اسی کو محد ثین نے صحیح قرار دیا ہے ۔