ولادت
حضرت خدیجہ الکبری مستند تاریخی روایات کے مطابق عام الفیل سے پندرہ برس پیشتر یا رسول اللہ کی بعثت سے پچپن سال پہلے یا سن ہجری یعنی رسول اکرم کی ہجرت مدینہ سے تریسٹھ سال قبل پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام خویلد بن اسد اور والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ ہے۔ ام القری یعنی مکہ معظمہ آپ کی جائے سکونت ہے۔ چونکہ نبی کریم عام الفیل کے پہلے سال تولد ہوئے تھے، اس لیے خدیجہ کبریٰ نبی کریم سے پندرہ سال بڑی تھیں۔ عام الفیل اس سال کا نام ہے جس میں ابراہہ نامی شاہ حبشہ نے بہت سے ہاتھیوں کے ساتھ کعبہ شریف کو تباہ کرنے کے لیے مکہ میں لشکر کشی کی تھی، لیکن ابابیلوں کے خدائی لشکر نے اس نابکار کو لاؤ لشکر اور ہاتھیوں سمیت ہلاک کر دیا۔ اس کا بیان سورہ فیل میں مذکور ہے۔ بس خدیجہ کبریٰ کی ولادت اس واقعہ کے پندرہ سال پہلے ہوئی۔ آپ کے باپ نے اور بقول بض آپ کی والدہ نے آپ کا نام خدیجہ رکھا۔ اس وقت کسے یہ معلوم تھا کہ یہ خاتون محترم سرکار دو جہاں کے خانہ نبوت کی زینت بن کر مسلمہ اول کہلائے گی اور طاہرہ کبریٰ و محسن الاسلام جیسے القاب پائے گی۔
ایک نکتہ
یاد رکھئے کہ اگلے زمانوں میں بزرگان دین و ملت اور رہنمایان قوم و ملت کے پیدائش اور وفات کی صحیح تاریخوں کی یادداشت عام طور پر محفوظ نہیں رکھی جاتی تھیں۔ ان زمانوں میں کسی بزرگ کا یوم ولادت اور یوم وفات منانے کا رواج نہ تھا۔ جب کوئی پیدا ہوا ہو گیا جب کوئی فوت ہوا ہوگیا پیدائش اور مرگ کو کوئی چنداں اہمیت حاصل نہ تھی صرف اس بزرگ کے کردار، تعلیمات، اور اسوہ کو زندہ رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اور اس کو مشعل رہ سمجھا جاتا تھا آج کل بزرگوں کے ڈے اور یوم تو بہت منائے جاتے ہیں مگر ان کی تعلیمات اور انکے طریقوں پر عمل نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ اصل شان اور اصل محبت ان کی ہدایات پر عمل کرنا اور ان کے مشن کو زندہ کرنا ہے۔اور یہ بھی زمانہ حال کآئی ایک رسم ہے کوئی اسلامی مسلہ نہیں ہے
یہی وجہ ہے کہ کسی نبی اور کسی صحابی کا دن نہیں منایا گیا خلاصہ کلام یہ کہ حضرت خدیجہ کی صحیح تاریخ ولادت اگر نہیں ملتی تو نہ سہی ان کا مسلک اور ان کی تعلیمات زندہ ہیں اور اسی کی ضرورت ہے۔
حسب و نسب
حضرت خدیجہ الکبریٰ عرب کے شریف اور معزز خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ گویا آپ بھی اسی قریش خاندان سے ہیں جس خاندان سے رسول اللہ ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ خدیجہ کا قبیلہ بنو اسد کہلاتا ہے اور نبی کریم کا بنو ہاشم ۔ یہ دونوں قبیلے آپس میں بہت قریبی ہیں اور دونوں ہی عدنانی اور قصی کی نسل سے ہیں۔ اس لحاظ سے حضرت خدیجہ جناب رسول کریم سے زیادہ دور نہیں ہیں ان کا مختصر شجرہ یہ ہے: خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی۔ اس سے آگے شجرہ نسب سیدنا و مولانا محمد سے ملتا ہے۔
االلہ تعالی نے اپنے رسول اور دین کی حفاظت کے لیے ایسے اسباب پیدا کر دیے کہ پیغمبر کا بول بالا ہوتا گیا۔ دین اسلام بڑھتا اور پھیلتا گیا، اور االلہ اور اس کے رسول کے بد باطن دشمن خائب و خاسر اور ناکام و نامراد ہو کر تباہ و برباد ہوتے گئے۔ حضرت خدیجہ کی رحلت کے اڑھائی تین سال بعد ہجرت کا حکم ہوا۔ آنحضرت جملہ مسلمانوں سمیت مکہ کو چھوڑ کر مدینہ تشریف لے گئے جہاں االلہ کریم نے اسلام کو خوب فروغ بخشا۔ چند ہی سالوں میں دین اسلام ساری دنیا میں پھیل گیا اور رسول اکرم فاتحانہ انداز سے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے۔ االلہ تعالی نے دشمنوں کو دکھایا کہ جس کا کوئی حامی و ناصر نہ ہو، االلہ مالک الملک خود اس کی حفاظت و حمایت اور اسکی امداد و اعانت کا ذمہ دار ہوتا ہے اور ایک بے بس و بے کس اور بے یار و مددگار شخص کو فتح و نصرت عطا کر کے اسے تمام اعداء پر غالب کر دیتا ہے۔
سیدہ خدیجہ طاہرہ کی یاد
اسلام کے عظیم فروغ و ارتقاء اور االلہ تعالی کی عطا کردہ فتح و ظفر کو دیکھ کر جناب ختمی رسالت اپنی محبوب اور اطاعت گزار بیوی حضرت خدیجہ الکبریٰ کو نہیں بھولے۔ جیسا کہ عام لوگوں کا قاعدہ ہے کہ کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد کاروبار زندگی میں کچھ ایسے مصروف ہو جاتے ہیں کہ اپنے فوت شدہ عزیزوں اور تعلق داروں کو ایسا فراموش کر دیتے ہیں کہ بھولے سے کبھی ان کا نام نہیں لیتے ۔ نہیں حضور نے خدیجہ کو کبھی نہیں بھلایا۔ آپ نے ان کے احسانات، اںکی نیکیوں انکی فداکارئیوں، انکی جانثاریوں ہمدردیوں غمخواریوں فرمانبرداریوں قربانیوں غرض کسی بات کسی عادت کسی فضیلت کسی وصف اور کسی صفت کو کبھی فراموش نہیں کیا۔
آنحضرت نے سیدہ خدیجہ کی زندگی میں کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا، لیکن حضرت خدیجہ کےبعد آپ نےایک دو نہیں دس نکاح کیے، جو نفسانی خواہشات کے لیے نہیں بلکہ ملکی و قومی مصالح اور مشیت الہی پر حکمت الٰہی کے ماتحت تھے۔ دس بیویوں کی موجودگی میں بھی خدیجہ طاہرہ کو ایک لمحے کے لیے بھی فراموش نہیں کیا۔ ازواج مطہرات رشک و رقابت کی وجہ سے بعض دفعہ کہہ اٹھتی تھیں کہ آپ کی زبان پر ہر وقت خدیجہ خدیجہ رہتا ہے حالانکہ وہ ایک کمزور اور بوڑھی عورت تھی۔ لیکن حضور فرماتے اور آبدیدہ ہو کر فرماتے خدیجہ کے مرتبہ کو کوئی عورت نہیں پہنچ سکتی۔ وہ بے انتہا خوبیوں کی مالک اور تمام عورتوں سے افضل اور بہتر تھیں االلہ اکبر اس عظیم پیغمبر نے اپنی امت کو کیسے عظیم سبق دیے ہیں اور اپنے اسوہ حسنہ سے مسلمان مردوں اور عورتوں کو بہترین ازدواجی تعلقات قائم رکھنے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے، دین کی خاطر مال و زر کی قربانی دینے، اور تبلیغ و اشاعت میں ہمہ وقت مصروف رہنے کی تلقین کی ہے۔ اگر مسلمان بھائی اور بہنیں رسول اللہ اور حضرت خدیجہ طاہرہ کے نقش قدم پر چلیں تو ان کی زندگیاں بہشت بریں کا نمونہ بن سکتی ہیں اور وہ دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں ان کے مبارک طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔