سیرت النبی،کامیابی کی ابتدا

ان تما م تر نا کا میو ں کے بعد آخر کا اللہ پا ک نے آپ ﷺ کے دین کا پھیلا نے اپنے نبی کر یم ﷺ کا اکرام کر نے اور اپنا وعدہ پو را کر نے کا اردہ فر ما یا  آپ ﷺ حج کے دنو ں میں گھر سے نکلے وہ رجب کا مہینہ تھا عرب حج سے مختلف رسمو ں اور میلو ں میں شریک ہو نے کے لئے مکہ پہنچا کر تے تھے چنا نچہ اس سا ل بھی آپ ﷺ مختلف قبیلو ں سے ملنے کے لئے نکلے تھے آپ ﷺ عقبہ کے مقا م پر پہنچے

عقبہ ایک گھا ٹی کا نام ہے جس جگہ شیطا نو ں کو کنکر یا ں ما ری جا تی ہے یہ گھا ٹی ادی کے مقا م پر ہے مکہ سے منی کہ طرف جا ئیں تو یہ مقام با ئیں ہا تھ پر آتا ہے اب اس جگہ ایک مسجد ہےوہا ں آپ ﷺ کی ملا قات مد ینہ کے قبیلے خزرج کی ایک جما عت سے ہو ئی اوس اور خزرج مدینہ منو رہ کے مشہو ر قبیلے تھے یہ اسلا م سے پہلے ایک دوسرے کے جا نی دشمن تھے یہ لو گ بھی حج کیا کر تے تھے یہ حضرات تعداد میں کل چھے تھے بعض روایا ت میں آتا ہے کہ تعداد میں آٹھ تھے آپ ﷺ نے انہیں دیکھا تو ان کے قریب تشریف لے گئے اور آپ ﷺ نے فر ما یا

میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہو ں وہ بو لے ضرور کہیں بہتر ہو گا کہ ہمنلو گ بیٹھ جا ئیں پھر آپ ﷺ ان لو گو ں کے پاس بیٹھ گئے ان لو گو ں نے جب آپ ﷺ کے چہرے کی طر ف دیکھا تو وہا ں سچا ئی ہی سچا ئی اور بھلا ئی ہی بھلا ئی نظرآئی ایسے میں آپ ﷺ نے ارشا د فر ما یا

میں آپ لو گو ں کو اللی کی طرف دعوت دیتا ہو ں میں اللہ کا رسول ہو ں یہ سنتے ہی انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم آپ ﷺ کے بارے میں ہمیں معلو م ہے یہو دی ایک نبی کی خبر ہمیں دیتے رہے ہیں اور وہ ہمیں آپ ﷺ نے ڈراتے رہے ہیں (یعنی وہ کہتے رہیں ہیں کہ ایک نبی ظا ہر ہو نے والا ہے ) آپ ﷺ ضرور وہ ہی ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہم سے پہلے آپ ﷺ کی پیروی کر لیں

اصل میں بات یہ تھی کہ جب بھی یہو دیو ں اور مد ینہ کے لو گو ں کے درمیا ن جھگڑا ہو کر تا تو یہو دی ان سے کہا کر تے تھے کہ بہت جلد ایک نبی کا ظہو ر ہو نے والا ہے ان کا زما نہ قریب آگیا ہے ہم اس نبی کی پیروی کر یں گے اور اس کے جھنڈے تلے تمھا را ایسے قتل عا م کریں گے جیسے قوم عا داور قوم ارم کا ہو اتھا اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم تمھیں نیست و نا بو د کر دیں گے

اسی بنیا د پر مد ینے کے لو گو ں کو آپ ﷺ کے ظہو رکے با رے میں معلو م تھا اور اے بنیا د پر فورا آپ ﷺ کی با ت ما ن لی آپ ﷺ سے فو را تصدیق کی اور مسلما ن ہو گئے پے در پے نا کا میو ں کے بعد یہ بہت زبر دست کا میا بی تھی اور پھر یہ کا میا بی تا ریخی اعتبا ر سے بھی بہت بڑی ثا بت ہو ئی اس بیعت نے تا ریخ کے دھا رے کو مو ڑ کر رکھ دیا اللہ پا ک نے ان کے ذریعے ایک خیر کا ارادہ فر ما یا تھا اسلا م قبول کر تے ہی انہو ں نے عر ض کیا

ہم اپنی قوم اوس اور خزرج کو اس حا لت میں چھوڑ کر آئیں ہیں کہ ان کے درمیا ن زبر دست جنگ جا ری ہے اس لئے اللہ تعالی  آپ ﷺ کے ذریعے ان دنو ں کو ایک کر دے تو یہ بہت اچھی با ت ہو گی

اوس اور خزرج دنو ں سگے بھا ئیو ں کی اولاد تھے پھر ان میں دشمنی ہو گئی لڑائیو ں کو اتنا طو یل کھینچا کہ ایک سو بیس سال تک وہ نسل در نسل لڑتے رہے قتل پر قتل ہو ئے اس وقت انہو ں نے اپنی دشمنی کی طرف اشارہ کیا تھا لہذا نہو ں نے کہا ہم ااوس اور اپنے قبیلے کے دوسرے لو گو ں کو بھی اسلا م کی دعوت دیتے ہیں ہو سکتا ہے اللہ تعالی آپﷺ کے نا م پر ناہیں ایک کر دےاگر آپ ﷺ کے نا م پر ایک ہو گئے ان کا کلمہ ایک ہو گیا پھر آپ ﷺ سے زیادہ کو ن قا بل عزت اور عزیز ہو گا حضور اکرم ق نے ان کی با ت کو پسند کیا پھر یہ حضرات حج کے بعد مدینہ منو رہ پہنچے

اگلے سال قبیلہ خزرج کے دو اور قبیلہ اوس کے دو آدمی مکہ آئے ان میں سے پا نچ ہو تھے جو پچھلے سال عقبہ میں آپ ﷺ سے مل کر گئے تھے ان لو گو ں نے بھی آپ ﷺ نے بیعت لی آپ ﷺ نے ان کے سامنے سو رہ النسا کی آیا ت کی تلا وت فر ما ئیں

بیعت کے بعد جب یہ لوگ واپس جا نے لگے تو آپ ﷺ نے ان کے ساتھ عبد اللہ ابن ام مکتو م کو بھیجا آپ ﷺ نے مصعب بن عمیر کو بھی ان کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ نئے مسلما نو ں کودین سکھا ئیں اور قر آن کی تعلیم دیں انہیں قاری کہا گیا یہ مسلما نو ں میں پہلے آدمی تھے جنہیں قا ری کہا گیا

حضرت مصعب بن عمیر نے وہا ں کے مسلما نو ں کو نما ز پڑھا نا شروع کی سب سے پہلا جمعہ بھی انہو ں نے ہی پڑھا یا جمعہ کی نما ز اگر چہ مکہ میں فر ض ہو چکی تھی لیکن وہا ں مشرکین کی وجہ سے مسلما ن جمعہ کی نما ز ادا نہیں کر سکتے تھے سب سے پہلا جمعہ پڑھنے والو ں کی تعداد چا لیس تھی

کتا ب کے تا لیف عبداللہ فا رانی